Assignment 6476 Islamist 2021

  

Assignment 6476 Islamist 2021


سوال  نمبر 1۔       کردار کی تعاریف اور اس کے مختلف پھلوؤں پر نوٹ۔

جواب۔   کردار کی تعاریف

کردار کے معنیٰ ہیں طرز، طریق، عادت، قاعدہ، شغل، خصلت، کے ہیں جو انفرادی طور پر انسان میں نشونما پاتی ہیں جن کا تعلق انسانی زندگی کے ردّعمل و حالات میں پتہ چلتا ہے۔ انسان زمین پر اشرف المخلوقات اور مقامِ بلندھے۔ عقل اور اخلاق و کردار جو دوسری تمام مخلوقات سے یکسر علیحدہ کرتا ہیں۔ اسلام ایک اللہ ا کی عبادت کا حکم دیتا ہے اور اخلاق و کردار جھوٹ نہ بولنے ”بغض و حسد۔ وعدہ خلافی، خیانت، بدی، رشوت اور دوسری برائیوں سے بھی منع کرتا ہے۔ 

Mosque
Mosque

کسی انسان کے کردار  سے مراد اس کی مجموعی افعال  و عا دات ہیں ۔ انسانی   زندگی  کے تمام معاشراتی  اور اخلاقی معاملات  اس کے کردار کو ظاہر کرتے ہیں۔ انسان جو کچھ معاشرے  میں سوچتا ہے یا کرتا ہے،  وہ اس کے کردار میں شامل ہے۔اس میں انسان کے تمام فقر و خیالات شامل ہیں۔انسان جو بھی کام کرتاہے وہ اس کے کردار سے وابستہ ہے۔چاہے وہ کام ایک مرتبا ھو یا  روز مرہ کی آدات کیوںنہ ہوں۔ہر  معاشرہ اپنے افراد سے ایسے کردار کی توقع راکھتا  ہے لو اس معاشرے کے لیے مفید ہو۔ اسلام میں جس طرح عبادات اور معاملات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ،اسی طرح یہ حسنِ اخلاق ،تعمیرشخصیت اور کردار سازی کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔دین کا بنیادی ماخذقرآن کریم ہے۔یہ رشد و ہدایت کا سرچشمہ اور کردار سازی کا بنیادی منشور ہے۔یہ وہ کتابِ ہدایت ہے ،جس نے انسانیت کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے حسن اخلاق اور کردارسازی کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ارشادِ ربانی ہے: بے شک، یہ قرآن سب سے سیدھے اور مضبوط راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے، یہ روشنی کا پیغامبر ہے، یہ ایک مینارئہ نور ہے، جس سے سارا عالم رہتی دنیا تک تاریکی سے نجات پاتا رہے گا۔ 

اسلام نے تربیت کردار پر بہت زور دیا ہے۔قران قریم میں نبی کریم ﷺ کا بعثت  کا مقصد یوں بیان کیا گیا ہے۔

بیشک اللہ تعلیٰ نے مومنین پر  ان میں سے ایک رسول بھیج کر ان پر احسان کیا ہے۔ یہ نبی ان پر اللہ کی آیات پڑھتا ہے اور انہں حکمت و دانائ کے لیے کتاب کی تعلیم دیتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کے بعثت کے تین مقاصد ہیں۔

آیات کی تلاوت ، تزکیہ نفس ، تعلیم کتاب و حکمت یہ تین امور انسان کی تربیت اعر امور کے لیے استعمال ہوے۔  آپؐ  نے ان تعلیمات  کی تابلیغ کی اور ان پر عمل بھی کیا۔  بیشک تمھارے لیے محمد صلی ﷺ کی زندگی ایک بھترین نمونہ ہے۔

کردار کے مختلف  پہلو:

انسان کے کردار کو بیان کرنے کے لیے دو مختلف اور بڑے پہلو ہیں۔

٭   انفرادی پہلو

:  ایسا  پہلو جس  میں انسان کی اپنی   ذات کے گرد گھومنے والے  کام  اور سر  گرمیاں   شامل ہوں۔ اس میں وہ کام جو وہ اپنی  ذاتی دلچسپی  سے  کرتا  ہے، اور اس کا  اثر  کسی  اور  فرد  پر  نہیں  پڑھتا۔ جیسے کے ایک  فرد کا  رہنے سھنے کا   طریقہ ،  پڑھنے  لکھنے  اور آرام کرنے  کا  طریقہ  عبادت اور   دوسری  نجی  مصروفیات     وغیرہ شامل ہیں۔

٭    اجتماعی   پہلو:  

انسان کا  اجتماعی   کردار ان  کاموں   یا   حرکتوں  سے ظاہر ہوتا ہے  جن کا  اثر  معاشرے کے  دوسرے افراد پر  پڑھتا ہے۔ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی بگاڑ داخل ہوچکا ہے۔ امانت، دیانت ”عدل، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ ہماری اقدار کمزورپڑتی جارہی ہیں۔ کرپشن بدعنوانی ناسور کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ظلم و نا انصافی کا دور دورہ ہے۔ لوگ قومیو و اجتماعی فکر سے خالی ہیں اپنی مفادات اور ذات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ ان جیسے دیگر منفی رویے ہمارے قومی مزاج میں داخل ہوچکے ہیں۔

آج قومی اوربین الاقوامی سطح پر پوری دنیا میں فسادو بگاڑ برپا ہے، امن و عدل کا خو ن کیا جا رہا ہے، کمزوروں پر شہہ زوروں کا ظلم، عورتوں کے حقوق کی پامالی، معصوموں اوربے گناہ لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے نام پر قوم کی قوم تباہ وبرباد کی جا رہی ہے۔ ہر طرف انتشار اور ظلم و تشددکا بازار گرم ہے۔ خود ساختہ قوانین بے معنیٰ اور بے وزن ہیں۔ نہ ہی ان قوانین و ضوابط میں استحکام و پائداری ہوتی ہے۔

اس لئے انسانوں کا بنایا ہوا کوئی ضابطہ اور کوئی قانون انسانوں کے لئے نسخ شفاء نہیں بن سکتا۔ ان قوانین کے نفاذکی جس قدر کوششیں کی جائیں گی خامیوں اور نقائص سے یہ قانو ن اور حالات کی سنگینی کا ہی سبب ہو گا۔ جدید جاہلیت بے نقاب ہو کر سامنے آگئی ہے۔ انسان ہمہ وقت انسانی کردارکشی کے لئے متحرک ہے اللہ نے ساری مخلوقات ایک کا قانون و ضابطہ دیا ہے ۔

ہمارے ہاں معاشرتی اور اخلاقی موضوعات پر بات کم ہوتی ہے۔ تعلیم ہمارے معاشرے کی روٹی، کپڑا، مکان، روزگار کے ساتھ اشد ضرورت ہے۔ اخلاقیات کا فقدان موجود رہے جس سے معاشرے میں امن و سکون نہیں ا سکتا۔ روزگار سے اخلاقیات نہیں اسکتی واحد ذریعہ تعلیم و تربیت ہے۔ بچہ کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گو۔ ر گھر کا ماحول ہے۔ والدین کی عادات بچے کی شخصیت سازی کے لئے اہم ہوتی ہیں۔ جس طرح گھر کا ماحول ہو گا، بچے کی تربیت بھی اسی طرز کی ہوگی۔ گھر میں لائبریری ہوگی تو بچہ کا رجحان تمام عمر کتب بینی کی طرف رہے گا۔ 5سے 6 سال کی عمر سے بچہ زندگی کا ابتدائی حصہ سکول میں گزارتا ہے۔ سکول تعلیم و تربیت کا بہترین ذریعہ۔ عمر کے اس حصے میں سیکھنا بہت آسان ہوتا ہے۔ لہذا عمر کے اس حصے میں تعلیم و تربیت عمارت کی بنیاد رکھنے ہے۔

 

 ہیں۔       سوال  نمبر 2۔ رسول  اکرم ﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت

                                                           

جواب۔ تفصیلی  نوٹ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری کائنات کے لیے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا بنایا ہے کہ نہ اس سے پہلے ایسا کوئی بنایا ہے نہ بعد میں کوئی بنائے گا۔ سب سے اعلیٰ، سب سے اجمل، سب سے افضل، سب سے اکمل، سب سے ارفع، سب سے انور، سب سے آعلم، سب سے احسب، سب سے انسب، تمام کلمات مل کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں،اگر سارے جہاں کے جن و انس ملکر بھی خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس اور سیرت طیبہ کے بارے میں لکھنا شروع کریں تو زندگیاں ختم ہو جائیں مگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا کوئی ایک باب بھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔

کیونکہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ”اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔جس ہستی کا ذکر مولائے کائنات بلند کرے،جس ہستی پر اللہ تعالیٰ کی ذات درودوسلام بھیجے، جس ہستی کا ذکر اللہ رحمن و رحیم ساری آسمانی کتابوں میں کرے، جس ہستی کا، چلنا،پھرنا،اٹھنا، بیٹھنا،سونا، جاگنا،کروٹ بدلنا، کھانا، پینا۔ مومنین کیلئے باعث نجات، باعث شفاء، باعث رحمت،باعث ثواب،باعث حکمت، باعث دانائی ہو، اور اللہ رب العزت کی ذات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کبریا کو مومنین کیلئے باعث شفاعت بنا دیا ہو، اس ہستی کا مقام اللہ اور اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی جانتے ہیں۔ پھر اس ہستی کے مطلق سب کچھ لکھنا انسانوں اور جنوں کے بس کی بات نہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے شمار خصوصیات عطافرمائی ہیں جن کو لکھنا تو در کنارسارے جہان کے آدمی اور جن ملکر گن بھی نہیں سکتے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس الفاظ اور ان کی تعبیرات سے بہت بلند وبالا تر ہے۔ آپ کا ئنات کا مجموعہ حسن ہیں، آپ کا قد نہ زیادہ لمبا تھا نہ پست، ماتھا کشادہ تھا، سر بہت خوبصورتی کے ساتھ بڑا تھا، آپ کے بال نیم گھنگریالے تھے، آپ کی بھوئیں گول خوبصورت تھیں جہاں وہ ملتی ہیں وہاں بال نہ تھے وہاں ایک رگ تھی جو کہ غصے میں پھڑکتی تھی، آنکھ مبارک کے بارے میں ہے کہ آپ کی آنکھیں لمبی، خوبصورت، سرخ ڈوروں سے مزین تھیں، موٹی اور سیاہ، سفیدی انتہائی سفید، آپ کی پلکیں بڑی دراز، آپ کی ناک مبارک آگے سے تھوڑا اٹھا ہوااور نتھنوں سے باریک، ایک نور کا ہالہ تھا جو ناک پر چھایا رہتا تھا، آپ کے ہونٹ انتہائی خوبصورت تراشیدہ، تھوڑے دہانے کی چوڑائی کے ساتھ، دانت بڑے خوبصورت اور متوازی اور ان میں کسی قسم کی کوئی بے ربطگی نہ تھی، انتہائی باہم مربوط، پہلے چار دانتوں میں خلاء تھا، جب آپ مسکراتے تو دانتوں سے نور نکلتا ہوا سامنے پڑتا تھا، گال مبارک نہ پچکے ہوئے نہ ابھرئے ہوئے، چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوا گول تھا، داڑھی مبارک گھنی تھی۔

ام مبارک رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ”میں نے ایک نوجوان دیکھا بڑا صاف ستھرا، حسین سفید چمکتا چہرہ، جیسے کلیوں میں ایک تازگی ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ چمکتا تھا نوخیز کلیوں کی طرح، اورفرماتی ہیں نہ آپ ایسے موٹے تھے کہ نظروں میں جچے نہیں اور نہ ایسے دبلے اور کمزور تھے کہ بے ر عب ہوجائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وسیم وقسیم تھے (عربی زبان میں وسیم بھی خوبصورت کو کہتے ہیں اور قسیم بھی خوبصورت کو کہتے ہیں وسیم وہ خوبصورت ہوتا ہے جسے جتنا دیکھیں اس کا حسن اتنا بڑھتا ہے جیسے دیکھتے ہوئے آنکھ نہ بھرے، قسیم اسے کہتے ہیں جس کا ہر عضو الگ الگ حسن کی ترجمانی کرتا ہو، جس کا ہر عضو حسن میں کامل اور اکمل ہو)۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سراج منیرکا لقب دیا یہ لقب صرف آپ کو ہی دیا گیا، جس کا مطلب ہے ”روشن چراغ“ آپ نبوت کا روشن آفتاب ہیں۔ آپ کے آفتاب کی کرنیں سب سے پہلے اصحاب رسول پر پڑی پھرتمام دنیا پر پھیل گئیں۔اور انہی کرنوں کی بدولت دنیا کے تمام خطے پر اسلام پھیل گیا۔ اور ان کرنوں نے چپہ چپہ پر ہدایت کا نور پھیلایا۔ 

علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال میں سے بہت تھوڑا ساظاہر فرمایا اگر سارا ظاہر فرماتے تو آنکھیں اس کو برداشت نہ کرسکتیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا سارا حسن ظاہر کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کی چند جھلکیاں دکھائی گئیں اور باقی سب مستور رہیں، کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس جمال کی تاب لا سکتی، اس لئے ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ہم تک پہنچایا۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اس بات کو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ شاعر رسول اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا”آپ جیسا حسین میری آنکھ نے نہیں دیکھا، آپ جیسے جمال والا کسی ماں نے نہیں جنا، آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے، آپ ایسے پیدا ہوئے جیسے آپ نے خود اپنے آپ کو چاہا ہو۔“ یہاں شاعر کا تخیل اتنی بلندی پر گیا ہے کہ قیامت تک آنے والے نعت خواں وہاں تک نہیں پہنچ سکتے،ساری دنیا کا نعتیہ کلام ایک پلڑے میں اور یہ ایک مصرع دوسرے پلڑے میں ہوتو اس کا وزن زیادہ ہے۔ غرضیکہ آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں سب سے زیادہ رحمت اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت پیدا فرمائے، اور ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت و کردا رکو اپنا کر دین اسلام کی تبلیغ و ترویج اور معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بنائے،آمین۔ 

سوال  نمبر3۔      رسول اکرم ﷺ کے شخصی اوصاف پر نوٹ۔

جواب۔ آپ ﷺ کی شخصیت خوبیوں اور کمالات   کا مجموعہ تھی ۔  یہاں آپﷺ کی چند ایک صفات کا اس خیال سے تذکرہ کیا جاتا ہے،کہ ہم  سب اپنے اندر  خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اوصاف نبوی سے مرادہے نبی کریمﷺکی خوبیاں اورکمالات۔
عام طور پر دنیا کے دوسرے معلّمین اخلاق کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ وہ جن اخلاقی اصولوں کی تبلیغ کرتے ہیں اور جن ملکوتی صفات کو جذب کرنے پر زور دیتے ہیں خود ان کی اپنی زندگی میں ان تعلیمات کا اثر بہت کم ہوتا ہے، مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کو کہیں بھی یہ نقص نظر نہیں آئے گا جو شخص سیرت و کردار پاک کی جتنی زیادہ گہرائی میں جائے گا وہ اسی قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق اور پاکیزہ کردار کا مدح سرا نظر آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سب سے بڑا اصول یہ تھا کہ نیکی کا کوئی کام اور ثواب کا کوئی عمل ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اس پر عمل کرتے تھے۔ آپ جب کسی بات کا حکم دیتے تو پہلے آپ اس کو کرنے والے ہوتے۔

حضرت انس بن مالک رضي الله تعالى عنه رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی صحابی اور وفادار خادم تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور آپ کی سیرتِ مبارکہ کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے پورے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ محاسن اخلاق کے حامل تھے۔ 

حضرت انس رضي الله تعالى عنه سے زیادہ قریب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار اور اخلاق واعمال کے مشاہدے کا موقع ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنها کو میسر آیا تھا کیوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقہٴ حیات تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ظاہری اور خانگی معمولات و عادات سے واقف تھیں۔ ایک مرتبہ چند صحابی رضي الله تعالى عنه حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنها کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے امّ المومنین ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور معمولات بیان فرمائیے۔ تو عائشہ صدیقہ نے جواب دیا کہ کیا تم لوگوں نے قرآن نہیں پڑھا؟ کان خلق رسول القرآن ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا“ (ابوداؤد شریف) یعنی قرآنی تعلیمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار میں رچی اور بسی ہوئی تھی۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ذرا بھی منحرف نہ تھے۔ خود قرآن کریم میں آپ کے بلند اخلاق و کردار کی شہادت دی گئی ہے کہ ”بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں۔ 

آپ ﷺ کی تعلیمات عالیہ صرف کسی ایک گروہ انسانی یا کسی مخصوص زمانے تک محدود نہیں۔ یہ قیامت تک کے بنی نوع انسان کے لیے وہ منشور حیات ہے جو ہر عہد اور ہر خطے کے انسان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ آپ ﷺ نے ہر قسم کے نسلی، لسانی، علاقائی اور گروہی تعصبات کا خاتمہ کردیا۔ خطبہ حجۃ الوداع تہذیب انسانی کا وہ پہلا جامع آئین ہے جس نے احترام آدمیت اور انسانی حقوق کے بنیادی اصول متعین کیے۔ نبی کریم ﷺ انسانیت کی خدمت و امداد کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور دیکھا کہ دور تک آپ ﷺ کی بکریوں کا ریوڑ پھیلا ہوا ہے تو اس نے آپ ﷺ سے جانوروں کی درخواست کی اور آپ ﷺ نے بکریاں اسے دے دیں۔ اس شخص نے اپنے قبیلے میں جاکر کہاکہ اسلام قبول کرلو محمد ﷺ ایسے فیاض ہیں کہ مفلس ہوجانے کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ 

سوال  نمبر4۔     قران قریم اور حدیث کی روشنی میں  اخلاقی تعلیمات پر نوٹ لکھیں۔

جواب۔ اسلام میں اچھا شخص اسی کو کرار دیا گیا ہے جس کا کردار اچھا ہو۔ اسی طرح وقت کے صحیح استعمال پر انسان کی کامیابی و ناکامی کا دارومدار ہے، انسان اپنے ارادے میں آزاد و خودمختار ہے کہ جو قوتیں اسے بخشی گئی ہیں انہیں کام میں لائے اور خدا کے حضور جواب دہی کے لیے ہر وقت تیار رہے، یہی وجہ ہے کہ انسان جب کسی برے کام کا ارادہ کرتا ہے تو یہ اندرونی آواز اسے بچانے کی کوشش کرتی ہے، اور بسا اوقات ایک بدعمل اور بدسلیقہ انسان بھی اپنی برائیوں پر قابو پاکر نیک کردار اور ہنرمند بن جاتا ہے۔

غور سے دیکھا جائے تو قرآن مجید علم الاخلاق کی ایک حکیمانہ کتاب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اس میں انسانی زندگی کی تہذیب و شائستگی کے ہر پہلو پر بحث کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قوم یا فرد کی زندگی کے لیے کس قسم کے آداب و اخلاق کی ضرورت ہے۔ اس نے وہ تمام ذرائع بھی تلقین کیے ہیں جن سے افراد کا کردار درست ہو اور وہ اس قابل ہوسکیں کہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں خوش اسلوبی سے حصہ لیں۔ قرآن مجید کے سب سے پہلے مخاطب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مطلوبہ اخلاق کے اعلیٰ ترین نمونہ تھے۔ 

اسلام کے دیگر ارکان کی طرح اخلاق بھی اسلامی نظامِ زندگی کا ایک شعبہ ہے۔ قرآن نے عقائد و عبادات کے بعد سب سے زیادہ درستیِ اخلاق پر زور دیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ بندہ عقائد و عبادات میں جس طرح اپنے رب کی مرضی کا پابند ہوتا ہے اسی طرح زندگی کے طور طریق، شب و روز کے معمولات اور حقوق کی ادائیگی میں بھی اس کی مرضی کا پابند ہو۔ قرآن نے مختلف طریقوں اور اسالیب میں اخلاقی تعلیمات پیش کی ہیں، کبھی برائیوں کے اسباب کی نشاندہی کرکے اس کے تدارک کی صورتیں بتائی ہیں، تو کبھی اخلاقِ حسنہ کو عمدہ تشبیہات کے ذریعے پیش کرکے مخاطب کو لبھایا ہے، اچھے اخلاق کے اچھے نتائج اور برے اخلاق کے برے نتائج کو بھی کھول کھول کر بیان کیا ہے۔

نظام زندگی کی تشکیل و تعمیر: قرآن کا اخلاقی نظام انسان کی صرف انفرادی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کو اجتماعی زندگی تک وسیع کرکے اخلاقیات پر اپنے پورے نظام ِزندگی کی تشکیل و تعمیر کرتا ہے اور زندگی کے کسی شعبے کو بھی اخلاقی نظام کی گرفت سے آزاد نہیں کرتا۔ انسان کا ہر عمل اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ہر عمل کو اچھا یا برا نام ملتا ہے اور اسی اعتبار سے اس کا انجام بتایا گیا ہے۔ 

ایک حدیث ملاحظہ کیجیے ‘ حضرت اَنس رضی اللہ عنہ جو نو برس تک حضورؐ کے ذاتی خادم کی :حیثیت سے آپؐ کے ساتھ رہے ہیں‘ ان کی گواہی ہے کہ: شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہوگا کہ ہمیں اللہ کے رسول ؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا ہو اور اس میں یہ الفاظ نہ وارد ہوئے ہوں:’’ جس شخص کے اندر امانت داری کا وصف نہیں ہے اس کاکوئی ایمان نہیں اور جس میں ایفائے عہد کا مادہ نہیں اس کاکوئی دین نہیں‘‘. امن ‘ امانت اور ایمان کا قریبی رشتہ ہے اور لفظی طور پر بھی ان کا ایک ہی مادہ ہے. ایفائے عہد کا دین سے جومعنوی ربط ہے اس کو سمجھ لیجیے‘ کہ درحقیقت دین بھی تو بندے اور رب کے درمیان ایک عہد ہے۔ 

سوال  نمبر5 ۔  والدین کے حقوق پر نوٹ ۔ 

جواب۔ والدین انسان کے وجود کا ذریعہ ہیں، بچپن میں انھوں نے ہی اس کی دیکھ بھال اور پرورش کی ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اپنی توحید کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ والدینمیں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے؛ کیونکہ پیدائش میں ماں نے زیادہ تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ ہر مرد اور عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ والدین خاندان کی اصل اور جڑ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن حکیم میں کئی مقامات پر والدین کی مشترکہ حیثیت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ والدین کا درجہ بہت بڑا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اولاد پر والدین کے جتنے احسانات ہوتے ہیں اتنے احسانات مخلوق میں کسی اور کے نہیں ہوتے۔ بچہ ماں باپ کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ماں باپ بچے پر فطری طور پر شفقت اور محبت کرتے ہیں۔ وہ اسے ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود تکالیف اٹھا لیتے ہیں لیکن اپنے بچے کو تکلیف نہیں پہنچنے دیتے۔بچپن اور بڑھاپے میں انسان بہت کمزور ہوتا ہے۔

والدین کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم عمر کے ہر حصے میں واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان، لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے ہے کہ اس عمر میں جاکر  ماں باپ بھی بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور عقل و فہم بھی  جواب دینے لگتی ہے اور انہیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں۔  وہ خدمت کے محتاج ہوجاتے ہیں تو ان  کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لئے قرآن حکیم میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت (یعنی بچپن کا زمانہ) یاد دلایا کہ کسی وقت تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے ان سابق احسان کا بدلہ ادا کرو۔ 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کی خدمت کرنے کو جہاد سے افضل قرار دیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں شریک جہاد ہونے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا، آپ نے اس سے دریافت کیا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا فَفِيْھَا فَجَاِھد یعنی بس اب تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو یعنی ان کی خدمت سے ہی جہاد کا ثواب مل جائے گا۔ 

حضرت عبداللہؓ بن عمروبن العاص روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا۔ میں آپ ﷺ سے ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اجر چاہتا ہوں، آپﷺ نے اس سے پوچھا کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے عرض کیاہاں دونوں زندہ ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ تم اللہ سے اجر چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا۔ جی ہاں۔ فرمایا اپنے ماں باپ کے پاس جائو اور ان سے نیک سلوک کرو۔

Post a Comment

New comments are not allowed.*

Previous Post Next Post

Blog ads 1