Write a note on importance of criticism in literature

ادب میں تنقید کی ضرورت اور اھمیت پر نوٹ لکھیں۔

  تنقید کی ضرورت

اردو میں باقاعدہ تنقید نگاری کے آغاز سے پہہلے تذکروں کی طویل روایت ملتی ہے۔ تذکرہ نویسی تنقید نہیں مگر شعر فہمی کے اعلی معیارات کی وجہ سے اس میں تنقیدی اصول بھی ملتے ہیں۔ گو اردو تذکروں کا موضوع نثر کے بجائے شاعری تھا مگر ان کی مدد سے  اردو ادب کے مجموئی تخلیقی مزاج کے حوالے سے تنقیدی آرا مرتب کی جاسکتی ہیں۔ اردو شاعری پر لکھے جانے والے تذکرے دوحصوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا حصہ فارسی تنقیدی تذکروں پرمشتمل ہے جب کہ دوسرا حصہ اردو میں لکھے ہوئے تنقیدی تذکروں پرمشتمل ہے۔


Write note on importance of criticism in literature
Literature

تذکرہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں یاد کرنا ۔ گویا تذکرہ کے لغوی معنی تو کسی کو یاد کرنا کے ہیں مگر اردو اور فارسی میں اس کو بطور اصطلاح استعمال کیا جاتا ہے لین ای کتاب جو شعرا کے واقعات، حیات زندگی اور خیالات کے ساتھ انتخاب اشعار بھی پیش کرتی ہو۔ اردو تذکرہ نویسی کا سرمایہ کثیر تعداد میں موجود ہے۔ ان تذکروں کی مدد سے اردو کی ادبی تاریخ مرتب کرنے میں بہت مددلی ہے۔ ایسے شعرا جن کی کتب اور حالات زندگی کا ہیں نشان نہیں مو جو دگر تذکروں میں ان کا ذکر ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔ ایسے سیکڑوں شعرا کی فہرستیں بنائی جا سکتی ہیں جن کے بارے میں تاریخ خاموش ہے مگر وہ مستند تذکرہ نویسوں کے تذکروں میں ہمیشہ کے لیے موجودنظرآتے ہیں۔ تذکرہ نویسی تقریر نویسی کے بہت قریب تھی۔ تقریظ اس تحریر کو کہا جاتا ہے جو کتاب کے آغاز میں پیش کی جاتی اس میں مصنف کے اوصاف اور شاعری کی نمایاں خوبیاں بیان کی جاتیں تا کہ پڑھنے والے کو آسانی رہے۔ تقر یا نوی کے بہت گہرے اثرات تذکرہ نویسی پربھی پڑے۔ قاری کا پہلا تذکرہ مدعونی کالباب الالباب ہے۔ اردو میں فارسی تذکروں کے تتبع میں ہی اردو تذکرے لکھے گئے ۔ تذکرے تو اردو شعرا کے ہوتے مگر زبان ان کی فارسی ہوتی۔ صرف زبان فارسی نہ ہوتی بلکہ فارسی کے اصولوں کی پیروی بھی کی جاتی۔ اسی وجہ سے اردو میں فارسی ادبی اصولوں کو زیادہ اہمیت دی جائے گی ۔ اردو ابتدائی تنقید میں فارسی تخلیقی ادب کے اصولوں کی روشنی میں تجزیہ کرنے کا رجحان بھی ملتا ہے۔

تنقید کی اھمیت

بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اردو میں تنقید لکھنے کا آغاز ہوتا ہے، اسی زمانے میں لفظ تنقید کا استعمال بھی پہلی دفعہ ہوا۔ سر عبد القادر وہ پہلے ناقد اور لکھاری ہیں جنھوں نے تنقید کو اس کے اصل معنوں میں استعمال کیا۔ انھوں نے مجله مخزن کے ستمبر ۱۹۰۱ء کے ایک شمارے میں فن تنقید پر ایک مضمون لکھا ۔ اس مضمون میں وہ پہلی دفعتنقید کے بنیادی أن تصورات کی تشرت کرتے نظر آتے ہیں جس قسم کے تصورات مغرب میں رانی تھی۔ اس زمانے میں کری ٹی سرزم کے تراجم ، نکتہ چینی اور رائے زنی کیے جارہے تھے۔

 

شروع شروع میں لفظ تنقید اور اس کے اطلاقی نمونوں سے اردو ادب کا قاری نابلد تھا۔ بلکہ تنقید کو نکتہ چینی وغیرہ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا رہا۔ نصف صدی بعد یعنی بیسویں صدی کے وسط سے تنقید کو وقار اور اعتبار ملنا شروع ہوا۔ اردو میں تنقید کا مفہوم اس ایک جملے میں سمٹ آتا ہے۔ تنقید کے معنی ادبی متون کے معائب ومحاسن کو پرکھنے کا فن ہے۔ بظاہر اس ایک سطر میں تنقید کی تعریف کو سمونے کی کوشش کی ہے مگر غور کیا جائے تو اس ایک سطر میں نمایاں نکته معائب ومحاسن کو پرکھنا ہے۔ مگر تنقید صرف معائب اور ان بتا کے ختم نہیں ہو جاتی بلکہ فن پاروں کی تعین قدر بھی کرتی ہے، ان کی نئی نئی معنوی تعبیر میں بھی پیش کرتی ہے۔ ان کا تقابلی مطالعہ بھی کرتی ہے اور ادب کی مجموئی روایت میں ان کی اہمیت بھی واضح کرتی ہے۔ ادبی تنقید میں خلیق کاروں کے لیے رہنمائی بھی موجود ہوتی ہے۔


اردو میں باقاعدہ تنقید کا آغاز انیسویں صدی کے ربع آخر میں ہوا۔ آب حیات ایک کتاب تھی جوتنقید، تذکرہ اور تاریخ نویسی کے ملے جلے رجحانات کے ساتھ سامنے آئی ۔محمد حسین آزاد ہی نے انجمن پنجاب کے ایک جلسے میں پیپر دیا جس کا موضوع تھا " نظم اور کلام موزوں کے ایک باب میں اس پیر کو اردو تنقید میں نظری اور ملی تنقید کی پہلی مثال کہا جاتا ہے محمدحسین کا بنیادی کام ہی اردو شاعری کے نئے اصول مرتب کرنا تھا اس لیے وہ جو پیر پیش کرتے اس کی ملی مثالوں کو پیش نظر رکھتے ۔ وہ ادب کی مجموعی تخلیقی حیثیت کو بدلنے کے مشورے دے رہے تھے۔


الطاف حسین حالی اردو کے ان ناقدین میں شامل ہوتے ہیں جن کی اہمیت ان کے تنقیدی نظری خیالات کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے اردو تنقید میں نظریہ سازی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ حالی کے نزدیک ادب کو خاری تصورات کے ساتھ پرکھا جانا چاہیے۔ انھوں نے ادب کے سی تاثر کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس کے لیے انھوں نے باقاعدہ نظریہ سازی کی اور قدیم کلاسیکی شاعری کو ازسرو نے تنقیدی اصولوں کی روشنی میں پڑھا۔ حالی وہ پہلے نقاد ہیں جنھوں نے اردو کو نئے تنقیدی اصول مہیا کیے اور نئی تنقیدی کشوں کا آغاز کیا۔ حالی کی نقدر نبی کی اصل وجہ وہ تراجم تھے جو لاہور میں مختلف انگریزی کتابوں کی زبان کی درستی کے لیے ان کو پیش کیے جاتے ۔ یہیں سے وہ لٹن، لارڈ میکالے، ارسطو وغیرہ کے خیالات سے آگاہ ہوئے اور خود اپنی نظریہ سازی کے قابل ہوئے۔ 

مقدمہ شعر و شاعری

مولانا حالی نے دو تہذیبوں کے درمیان کشمکش میں اپنے شعور کی آنکھ کھولی۔ ایک تہذیب حاکم تہذیب تھی جو مغربی حکمران اپنے ساتھ لائے  رہا تھا۔ برصغیر کی مختلف قوموں میں شناخت کا بحران پیدا ہو چکا تھا۔تھے جب کہ دوسری تہذیب مقامی تہذیب تھی جو صدیوں سے اس خطے میں رواں دواں تھی۔ معاشرہ تیزی سے بدل


قوم کا نیا تصور قوم کے تصور سے جوڑ دیا گیا۔ ایک قوم کہتی کہ ہماری پہچان ہمارے مذہبی شخص میں ہے جب کہ دوسری قومیں کسی اور شناخت کو اپنی شناخت کا نام دینے لگیں۔ مشترکہ تہذیبی سرمایہ الگ الگ حصوں میں تقسیم ہونے لگا۔ برصغیر میں زبانیں مذاہب کی نمائندہ بنے لگیں۔ اردو کو سلمان ، ہندی کو ہندوؤں اور رکھی کو سکھوں کی زبان قرار دے دیا گیا۔ جب کہ قابض حکمرانوں کی زبان انگریز کی تھی۔ مولانا حالی کی شاعری ایک طرف کلاسیکی رنگ لیے ہوئے ہے جب کہ دوسری طرف وہ قوم میں نئی روح پھونک رہے تھے۔ حالی بالواسطہ انگریزوں سے متاثر بھی تھے اور ان کی طرز پر اپنے ادب کی اصلاح بھی چاہتے تھے۔ بی تہذیبی کروٹ تھی کہ جہاں نئی نئی اصناف سامنے آ رہی تھیں ۔ حالی نے دیوان حالی کا مقدمہ لکھا جو اتنا طویل تھا کہ الگ سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ 

Post a Comment

Do not text any spam comments.

Previous Post Next Post

Blog ads 1